08-May-2022 لیکھنی کی کہانی -بدلہ قسط16
بدلہ
از مشتاق احمد
قسط نمبر16
آخری قسط
اتنے میں ندا کا بابا بھی آ گیا۔ ندا ڈری کھڑی تھی۔ کیا ہوا بٹیا؟
بابا وہ اس نے ہادی کی طرف اشارہ کیا بابا وہ درندہ ہے۔ آدم خور ہے۔
بابا نے حیرت سے ہادی کو دیکھا جو سر جھکا کر کھڑا تھا۔
بابا اسکو کہیں یہ چلا جائے مجہے ڈر لگ رہا ہے۔
بابا غور سے ہادی کو دیکھ رہے تھے۔
کہاں سے ہو تم؟
ہادی نے سر اٹھایا ۔دکھ سے دیکھا انکو کیوں کہ اب ہادی کو ان کے چہرہ پر نرمی نظر نہیں آ رہی تھی۔
میری مام جنگل کے پار والے قبیلہ میں رہتی تھی۔مجہے شہر لے آیی پھر سب کچھ بتاتا چلا گیا۔
دیکھو بیٹا ہم بھی اسی قبیلہ کے تھے۔
پھر اس بچی کو بھی اٹھا لاۓ۔
سب کو مار ڈالا یہ چھوٹی تھی اس وقت مجہے اس سے پیار ہو گیا۔
میں بھی تم جیسا تھا پر تم تو حد سے آگے نکل چکے ہو ۔
مجہے اس بچی پر ترس آیا۔
مانا کہ یہ میری سگی بیٹی نہیں پر سگی بیٹی ہی سمجھتا ہوں میں ندا کو۔
میں مشکل سے اسکو اٹھا کر بھاگا اور یہاں لے آیا۔ جب بھوک لگتی تو طلب ہوتی، جو مار ڈالی میں نے۔ پھر بدل گیا میں اب ہم یہاں رهتے ہیں۔
ماضی بھول چکے ہیں۔
تم پر ظلم ہوا مانتا ہوں پر تم عادی ہو بہت۔
ہمارے لئے خطرہ بن سکتے ہو۔
تم چلے جاؤ یہاں سے یہی ہم سب کے لئے بہتر ہے۔ بابا مجہے ندا سے پیار ہو گیا ہے سچ میں۔ ہادی نے منت کر کے کہا۔
بچہ اگر تمکو پیار ہوتا تو یوں نہ کرتے۔
اسکو پیار نہیں کہتے۔
میں جا رہا ہوں بابا پر ندا میری ہے میری امانت ہے آپ کے پاس میں آؤں گا پھر اور بدل کے آؤں گا خود کو۔
آپ انتظار رکھنا میرا۔
ندا کو آنکھوں میں سمویا اور چل پڑا۔
ندا اپنے بابا کے گلے لگ کر رونے لگی۔
بابا کیوں آیا تھا ہماری زندگی میں۔ اجاڑ کر چلا گیا ہمیں۔
ندا بھی پیار کر بیٹھی تھی ہادی سے اب اس کے بابا کو پتہ لگ رہا تھا۔
ہادی کو اب بدلنا تھا کیسے وہ خود کو مٹاے کیسے اپنی فطرت کو مارے چلتا گیا مجہے انسانوں کی آبادی میں نہیں جانا اب ۔
مجہے انسانوں سے دور رہنا ہے تب ہی میں خود کو بدل سکوں۔
غصہ میں بولا یہ بھوک ہی مجہے کمزور بناتی ہے نہ اب میں ہادی کو بھوک دوں گا تڑپ دوں گا۔
میں خود۔
یوں ایک جگہ جا کر اس نے ڈیرہ لگایا جو خطرہ سے باہر تھا۔ وہاں رہنے لگا۔
بھوک لگتی تو پھل کھاتا ورنہ خود کو سزا دیتا جب روک نہ پاتا خود کو پتے کھانے لگ جاتا۔
کیسا ظلم کیا تھا رینا نے اس پر۔
کاش وہ اس بچے پر ترس کھا جاتی۔
بدلہ کی جگہ معافی دے دیتی۔
اب بھگتنا ہادی کو تھا۔ شاید اس کے باپ نے ٹھیک کیا تھا۔
اگر زوبیہ آتی تو کیا وہ اپنی عادت بدل لیتی کبھی نہیں وہ انسانوں کو نقصان پہنچاتی۔
تب ہی تو اس کے مقدر میں موت تھی۔
ایک مہینہ گزر گیا جب کپڑے گندے ہوتے تو بدل کر نہر کنارے دھو لیتا پرانے گرم پانی ریت سے۔
بابا نے جاتے ھوے کوکو کپڑے دیے تھے جو کام آ رہے تھے۔
ہادی کمزور ہو گیا تھا۔برداشت کر کر کے۔
گزرتا رہا وقت۔
ادھر بابا اور ندا اپنی روٹین میں آ گئے تھے۔
بٹیا میں نے ایک لڑکا پسند کیا ہے تمہاری ہاں ہو تو میں اپنا فرض نبھا کر سکون سے رہوں۔
بابا کچھ رک جایں۔
بابا کو پتا تھا ندا کیوں ایسا کہ رہی ہے۔
دو سال گزر گئے اب ندا مایوس ہونے لگی تھی ہادی کا سوچ کر۔
آج اس کے بابا شہر گئے تھے۔
بٹیا ایک مہینہ اور بس پھر نہیں۔
ندا ندی کنارے چپ بیٹھی تھی کہ اسکو پیچھے قدموں کی آواز آیی۔
مڑی تو ہڈی کا ڈھانچہ بنا کوئی مرد کھڑا تھا۔
لمبے بال داڑھی پھٹے کپڑے۔
کون ہو تم ندا فورا اٹھی۔
ڈنڈا پکڑ لیا۔
ندا۔۔۔۔ اسنے پکارا۔
یہ آواز یہ تو ہادی کی تھی۔
کیسی حالت میں تھا وہ ندا کا دل دکھا۔
میں بدل گیا ہوں ندا۔
رو رہا تھا۔
اپنوں کی جدائی رلاتی رہی تھی ہادی کو۔
ان دو سال میں وہ پرانا ہادی نہیں رہا تھا پر ندا کو چیک کرنا تھا ابھی اسکو تب ہی اعتبار کرتی۔
اپنے خیمہ کی طرف گی ساتھ پیچھے ہادی تھا۔ احتیاط میں اس نے چھری چھپا لی اور ہادی کو بیٹھنے کو بولا۔
کام کرنے لگی بابا کہیں گے ابھی تک میں نے کام نہیں کیا۔
ناراض ہوں گے جلدی میں کام کرنے لگی۔
پھر پہلے کی طرح جان بوجھ کر کٹ لگا دیا۔
ہادی آج آخری بار تمکو آزما رہی ہوں دل میں بولی۔ چیخی۔۔۔ ہاۓ میرا ہاتھ۔
ہادی نے دیکھا بہت خون بہ رہا ہے بھاگ کر آیا۔
ندا کا ہاتھ پکڑا۔
ندا نے ڈر کر اسکا چہرہ دیکھا جہاں احساس تھا بس۔
فورا کپڑا باندھا۔
رو نہیں ٹھیک ہو جائے گا۔
ندا کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
اسکا انتظار اور امید رنگ لے آیی تھی۔
آج ہادی اسکو اپنا لگا تھا۔ وہ خوش تھی بہت۔
اتنے میں بابا بھی آ گئے۔
ندا یہ کون ہے؟
بابا ہادی ندا بابا کے گلے لگ کر بولی۔
ہادی کو کھانا کھلایا انہوں نے۔ پھر آپ بیتی سنی۔ اگلے دن شہر لے جا کر حلیہ ٹھیک کروایا۔
آج وہ تینوں خوش بیٹھے تھے۔
بابا مطمین تھے۔
اگلے ہفتہ انہوں نے سادگی سے ندا اور ہادی کا نکاح کروا دیا۔
تین سال گزر گئے۔
ہادی اور ندا کی بیٹی تھی دو سال کی جو بابا کی گود میں کھیل رہی تھی۔
بابا بیمار رہنے لگے تھے۔ پھر ایک دن وہ رخصت ہو گئے اپنی ندا کو چھوڑ گئے۔
سگا نہ ہونے کے باوجود انہوں نے کیا نہ کیا تھا۔ احساس ہی تو رشتوں کو مظبوط بناتا ہے۔
ندا اب ہم یہاں سے چلیں؟
بابا تھے تو رونق تھی اب کچھ نہیں بچا یہاں۔
کہاں جایں گے ہم ؟ہادی ندا بولی۔
اپنوں سے ملیں گے پھر جہاں قسمت ہوئی وہاں چلیں گے۔
سامان لے کر نکل پڑے۔
اب وہ گیٹ پر کھڑے تھے۔
کس سے ملنا ہے آپ کو؟چوکیدار نے پوچھا۔
عثمان صاحب سے۔ ہادی بولا۔
اندر گئے۔
صحن میں بیٹھے تھے سب۔
ہادی ادھر چلا آیا ندا اور بیٹی کے ساتھ۔
سب نے انکی طرف دیکھا۔
سب حیران تھے تم ہادی۔
کچھ ڈری نور بھاگ کر اپنے بیٹے کو گود میں لیا جو ہادی نے بھی دیکھا۔
سب چپ تھے۔
ہادی خود بولا۔ بابا یہ میری بیوی ندا اور بیٹی ماہ نور ہیں۔
سب ملے انکو بٹھایا۔
ہادی نے سب کچھ بتا دیا جو ہوا۔
سب سکون میں تھے خوش تھے۔
یہ بچہ؟ ہادی نے پوچھا۔
میرا بیٹا ہادی۔ نور بولی۔
بابا اب ہم چلتے ہیں۔ہادی بولا۔
کہاں؟ عثمان نے حیرانی سے پوچھا۔
بابا جہاں قسمت میں ہے۔
تم بیٹے ہو میرے۔ یہ ہمارا گھر ہے ۔تم اپنے گھر کو چھوڑ کر کیوں جاؤ گے؟
بابا۔۔۔ ہادی بولنے لگا تو عثمان نے ہاتھ کے اشارے سے چپ کروا دیا۔
نور بیٹا اپنی بھابھی کو اندر لے جاؤ۔ عثمان بولے۔ بیٹا جو ہوا ابھی تک دکھ ہے مجہے۔
معاف کردو بیٹا۔
ہادی اپنے باپ کے گلے لگا۔
آج انکی فیملی مکمل تھی۔ خوشیاں تھیں اب آگے۔ مشکل وقت گزر چکا تھا۔
سب مل بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے۔
سب خوش تھے۔
ختم۔